آج کا تعلیمی نظام

مستقبل میں جینے کےلیے جو صلاحیتیں چاہیں یہ آج کی تعلیم پیدا نہیں کر رہی یہ ایک مسئلہ ہے، لیکن ہمیں ہمارے مقصد ِتخلیق سے نہیں جوڑ پارہی یہ اِس کا بڑا مسئلہ ہے۔ موجودہ تعلیمی نظام کا بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ تعلیم لینے کی نتیجے میں ہمیں علم حاصل نہیں ہورہا ہمارے ایمان پر کوئی فرق نہیں پڑ رہا۔ سوشل اسٹڈیز ہمیں سوشل ہونے کی ایکسیلینس نہیں عطا کرتا، اسلامیات کا مضمون فہم ِدین نہیں عطا کرتا، لینگویج کے سبجیکٹ ہمارے لہجے  نرم نہیں بناتے، ریاضی کا مضمون ہمیں عقل کا استعمال نہیں سیکھاتا تجزیے کی قوت کو نہیں بہتر بناتا، سائنس کا مضمون مُشاہدے کے قابل نہیں بنا رہا، تاریخ کا مضمون اپنے ماضی سے سبق لینے والا نہیں بنا رہا، یہ ہمارا بڑا مسئلہ ہے۔ ایجوکیشن ہوتی رہتی ہے علم ایمان اخلاق کی کمی دور نہیں ہوتی، تعلیم میں آگے بڑھا علم میں آگے نہیں  بڑھا۔

 
جس نے زیادہ کلاسیں پڑھیں ہیں اُن کو زیادہ پتا ہوگا زندگی کا مقصد کیا ہے، اصولی طور پر اس کو زیادہ شعور ہونا چاہیے، میں ہوں کیا، میری حقیقت کیا ہے، مجھے پیدا کیوں کیا گیا ہے، زندگی ملی کیوں ہے اس کا کرنا کیا ہے مجھے اپنی زندگی میں جانا کہاں ہے، خدا مجھ سے چاہتا کیا ہے، کائنات کی حقیقت کیا ہے، اصل میں کامیابی کسے کہتے ہیں، اُس کے پاس اِن بڑے سوالوں کا جواب نہیں ہے، ان سوالوں کا اعلی جواب نہیں دے پائے گا۔ جس کی تعلیم زیادہ ہے وہ اپنے نفس پہ اتنا قابو رکھ سکے، مزاج بہترین ہو، انسانوں سے تعلق نباہنا آتا ہومگر نہیں نفس پہ قابو مشکل، مرعوب ہونے اور مرعوب کرنے میں لگاہے ہوا تبھی بڑا کام ہو نہیں پا رہا۔ 



دراصل تعلیمی نظام اس مقصد کے لیے ڈیزائن نہیں جس مقصد کے لیے ہمیں اللہ نے پیدا کیا ہے۔اسکولوں کا مسئلہ ہے جدید تعلیم انسانوں کو انڈسٹری کا انسان مطلوب تیار کرتی ہے اللہ کا انسان مطلوب تیار نہیں کرتی۔ معیشت کے خادم تیار کرتی ہے، اچھا انسان، اچھا باپ، اچھا بیٹا، اچھے اخلاق بندگی کا جوہر ویسے ہی ضمنی بائے پروڈکٹ کے طور پہ نکل آئے تو نکل آئے ورنہ یہ ماڈرن ایجوکیشن کا گول نہیں ہے، اگر یہ ماڈرن ایجوکیشن کا گول ہوتا تو جتنی جدید تعلیم بڑھ رہی ہے معاشرتی نظام کمزور ہورہا ہے، رشتے نباہنا مشکل بن رہا ہے، طلاق کی شرح بڑھ رہی ہے، نا امیدی بڑھ رہی ہے، ڈپریشن بڑھ رہا ہے، نفسیاتی امراض بڑھ رہے ہیں، ہماری تعلیم کا یہ پرابلم ہے۔ 
ہمارے ہاں رائج جدیدتعلیمی نظام میں تربیت کوسرے سے نظرانداز  کیا گیا ہے۔یعنی ہمارے جدید تعلیمی اداروں میں تعلیم کے نام سے جو سرگرمی سر انجام دی جاتی ہے، اس میں سے تربیت  کےعمل کو تقریبا ایک طرف رکھ دیا گیا ہے۔شاید تعلیمی سرگرمی انجام دے کر یہ سمجھاجاتا ہے کہ اس سے تربیت خودبخود حاصل ہوجائے گی۔ اس کے لئے الگ اور باقاعدہ کام کرنے کی ضرورت نہیں۔ حالانکہ یہ بالکل غلط تصورہے۔آج تربیت کے عمل  کو نظرانداز کرنے کا نتیجہ یہ نکلا ہے ،کہ ہمارے تعلیمی اداروں سے نکلنے والے تعلیم یافتہ افراد کو بعد میں الگ سے تربیت کی شدیدضرورت ہوتی ہے۔بدقسمتی سے موجود تعلیمی اداروں سے  ڈگری تو حاصل ہوجاتی ہے لیکن اخلاق و کردارکا معیار نہایت پست رہ جاتا ہے۔ 
آج کے تعلیمی نظام نے دو فکریں دی ہیں  سوائے اپنی معاشی  مستقبل کے کسی چیز کی فکر نا کرو، اس کو حاصل کرنے کے لیے رزلٹ اور نمبروں کے پیچھے پڑے رہو۔کسی بھی دور میں تعلیم کا یہ مقصد نہیں رہا کہ انسان کا معاشی مستقبل بہتر ہوجائے، یہ کبھی نہیں ہوا تھا کہ مالی مفادات کو تعلیم سے جوڑا جائے۔ یہ مسئلہ پچھلے سو سال میں پیدا ہوا ہے کہ ہم اپنی ایجوکیشن پروسس کو اپنے ایکنومک فیوچر سے جوڑے ہوئے ہیں، ہمارے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ میرا بچہ تعلیم حاصل نہیں کرے گا، تو کھائے گا کہاں سے اس کا بنے گا کیا۔
مسلم معاشرے کا عقیدہ یہ ہے کہ تعلیم رازق نہیں ہے، رازق اللہ تعالیٰ ہے، کسی انسان کو رزق اس وجہ سے نہیں ملتا کہ اس کی ڈگری زیادہ ہے یا کم ہے، یہ تو مغرب کا ورلڈ ویو ہے جس کو ہم نے بھی قبول کر لیا ہے۔ ہماری تعلیم دینے کی وجہ صحیح ہونی چاہیے نفیس ہونی چاہیے۔
تعلیم کی اصولی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ علم فراہم کرے، لیکن تعلیم اس وقت یہ کام نہیں کر رہی، علم کہ اصولی ذمی داری یہ ہے کہ وہ ایمان کی افزائش کرے، ایمان کا لازمی اور فوری نتیجہ یہ ہے کہ وہ اخلاق میں برتری پیدا کرے۔

No comments:

Post a Comment