کیا واقعی ہم اتنے علم دوست ہیں، ہمارے اندر علم سے اتنا لگاؤ ، حصول علم کی اتنی تڑپ ہے کہ اپنے بچوں کو بہلاپھسلا کہ، ڈرا دھمکا کہ، ڈنڈے کے زور پہ غرض ہر طرح کا حیلہ کرکے ان کے اندر وہ علم بھرتے ہیں جو نا ان کی طلب ہے اور نا اس کمسنی میں ان کی ضرورت ہے۔ ہمارا ایجوکیشن سسٹم ریڈنگ رائٹنگ اور اور کچھ سیٹ آف انفارمیشن کو تعلیم کہہ کہ بیچتا ہے۔ ریڈینگ رائٹنگ تو اسکلز ہیں کسی بھی عمر میں سیکھے جا سکتے ہیں اور علمی مواد کی حافظے میں منتقلی اس لیے ہوتی ہے کہ بچے کو امتحان سے گزارا جائے۔ وہ علمی مواد بچے کا حال بنتا ہے یا نہیں یہ اسکول کا درد سر ہی نہیں۔ اس طرح بس رٹو طوطے تیار ہوجاتے ہیں۔
یہاں تھوڑا ٹھر جانے رک جانے کی ضرورت ہے یہ غور کرنے کے لیے کہ
ہم اپنے بچوں کو اسکول کیوں بھیجتے ہیں؟
اس لیے کہ ہم علم دوست ہیں علم حاصل کرنا فرض سمجھتے ہیں؟
اس لیے کہ بچہ پڑھ لکھ کے کمانے کے قابل ہو سکے؟
اپنے عمل کے پیچھے "کیوں" کو واضح رکھنا ضروری ہے تاکہ پتا تو چلے ہم کوئی کام کر کیوں رہے ہیں اور کر رہے ہیں تو پیچھے کوئی بڑی وجہ ہے بھی سہی کہ نہیں۔
ان سوالات کے جوابات سے پہلے کچھ اور چیزیں ہیں جن کا سمجھنا ہم پہ کلئیر ہونا اہم ہے، جیسے علم ہے کیا؟ علم ہمارے وجود کا حصہ کب بنتا ہے؟ علم حاصل کیوں کیا جاتا ہے؟ علم ہمیں کس قابل بناتا ہے؟ کیا اسکول میں علم دیا بھی جاتا ہے، اگر دیا جاتا ہے تو کس قیمت پر؟
دیکھیں اگر آپ کو بھوک ہی نا لگی ہو، پیاس لگی ہی نا ہو آپ کو کھانے کی ضرورت ہی نا ہو اور کوئی آپ کو زبردستی کھلائے اپنی مرضی سے اپنی پسند کا اور کھانے کی مقدار بھی اس کی مرضی کی ہو تو آپ کو کیسا لگے گا؟ علم کی مثال بھی ایسی ہی ہے اس میں بھی زور زبردستی کسی صورت سودمند نہیں۔ تدریسی حملوں کے نتیجے میں علمی مواد تو منتقل ہو جائے گا بچے کا پرسپیکٹو نہیں بنے گا، اس کا لینس نہیں بنے گا۔ زیادہ سے زیادہ حافظے کی کوٹھڑی میں کچھ ایم بی کا اسپیس آکیوپائے کر لے گا، معلومات تو ہوگی علم انسان کے عمل کا حصہ ویسے نہیں بن پائے گا جیسا کہ ہونا چاہیے۔ یقین نہیں آرہا تو اپنے اردگرد نظر دوڑائیں ہم سب ہی نے جتنی اسلامیات پڑھی ہے اتنا اس پہ عمل بھی ہے، ویسے اخلاق ڈولپ ہو پائے ہیں جتنی اخلاقی معلومات ہیں؟
دراصل اس علم پہ عمل ہوتا جو آپ نے شوق سے اپنی مرضی سے حاصل کیا ہو، جس کو آپ نے شوق سے سیکھا ہو، انٹرسٹ ہے تب علم آپ کے اندر تک اترتا ہے۔ یا آپ کے ذہن میں علم کے متعلق سوال پیدا ہوتا ہے۔ کلاس روم میں جو ٹیچر کی ایکسپلینشن ہے وہ ان سوالوں کا جواب ہے جو کسی نے پوچھا ہی نہیں ہے بلکہ وہ سوال کسی کے ذہن میں ہی نہیں ہوتا۔ اگر کوئی بچہ پڑھنا نا چاہے ہم اسے یاد کرواسکتے ہیں اگر کوئی بچہ پڑھنا نا چاہے ہم اسے سمجھا بھی سکتے ہیں اس کی سمجھ کا پارٹ بنا سکتے ہیں، یہ دونوں کام ہی تو کرتے آرہے ہیں۔ خیر کی بات کی بچے کے اندر ٹھونس دینا تعلیم نہیں، اس کے نتیجے میں بچہ خیر کو سمجھتا تو ہے مگر خیر اس کی چوائس نہیں بنتا۔ وہ علم جس کا شوق بچے کے اندر جاگا نہیں ہے وہ بچے کا پرسپیکٹو نہیں بنے کا وہ علم اس کے اندر اترے گا نہیں۔ صحیح اور غلط کو سمجھ تو آجاتی ہے صحیح پہ عمل نہیں ہوتا غلط چھوڑا نہیں جاتا۔ سمجھ میں آئی ہوئی بات اس کی جیب میں پڑی ہوئی ہوتی ہے یاد بھی ہوتا ہے مگر وہ اس کا لینس نہیں بنتی کہ دنیا کو کس طرح دیکھنا ہے۔ ہم نے ہر کام کی بات کے ساتھ یہ کام کیا ہے ہم نے قرآن کے ساتھ یہ کام کیا ہے ہم نے حدیث کے ساتھ یہ کام کیا ہے۔ بتا دیا ہے،سمجھا دیا ہے،ویسا برتا نہیں جیسا حق ہے، اپنے اندر نہیں اُتاراکہ ہمارا حال بن جائے۔
علم بچوں تک کیسے پہنچے؟
جانی ہوئی بات، سمجھی ہوئی بات، برتی ہوئی بات،میرے اندر اُتری ہوئی بات۔
کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کوئی بات جو صرف جانی ہوئی ہے، سمجھی ہوئی نہیں ہے، برتی ہوئی نہیں ہے، تو وہ بچے کو دینے کی کوشش کرتے ہیں تو حافظے کے زور پہ کرتے ہیں، جو یاد رہ جاتا ہے وہ سنا دیتے ہیں۔ اس طرح کی ٹیچنگ سے جو علم بچوں کو منتقل ہوتا ہے وہ زندگی گزارنے کے قابل نہیں بناتا، وہ زیادہ سے زیادہ امتحان دینے کے قابل بناتا ہے۔ لیکن وہ علم جو برتا ہوا ہے جو میرے اندر اترا ہوا ہے، وہ علم جو میرے مزاج کا حصہ ہے وہ خود بخود نکلے گا۔ جو ہمارا یقین ہوتا ہے اس کو بچوں کو دینے میں کوئی محنت نہیں لگتی، آپ کا جو عقیدہ ہے اس کو آگے منتقل کرنے میں محنت نہیں لگے گی۔ اس کے لیے شرط ہے کوئی آپ کے ساتھ رہے اور آپ کا اس کے ساتھ اچھا تعلق ہو۔
No comments:
Post a Comment