طعنہ

اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی شان ہے کہ وہ گزری بات کا طعنہ نہیں دیتا روز محشر تک حساب کتاب کو موقف رکھا ہوا ہے اس کے علاوہ توبہ کا دروازہ بھی کھول رکھا ہےتوبہ کے بعد گناہ بھی مٹادیتا ہے۔ یہ انسان ہی ہے جو اِس تاک میں رہتا ہے کہ کب کس کو کس بات کا کہاں طعنہ دینا ہے گویا دوسروں کو طعنہ دینا لوگوں پہ اُن کے قول و فعل کے تضاد کو اور اُن کے علم و عمل کے گیپ کو ان پر جتانا اور اُس کی تشہیر جیسے کارثواب ہو۔نیت ہو، دلوں کا حال ہو یا کسی کے اعمال ہوں وہ بندہ جانتا ہے اور اس کا رب جانتا ہے۔ ہمیں دوسروں کا ظاہر دکھتا ہے اس کا باطن ہم نہیں جان سکتے، کسے خبر کہ وہ شخص کس قدر اپنی اصلاح کی کوشش میں مصروف ہو، اس کے کیا چلینچز ہوں۔ 

اپنی اصلاح، تزکیہِ نفس، طعنہ، اسلام، محاسبہ ، نیکی کی ترغیب
، محاسبہ ،اپنی اصلاح، نیکی کی ترغیب

بڑا کام

عجیب ذہن بنا ہوا ہے ظاہر پرست قسم کا، جو چیز نظر آتی ہے، زیادہ ہے یا بڑی ہے وہی اہم اور قابلِ قدر ہے۔ گھر کے کام کرنے ہیں لپک جھپک کر لو اور باورچی خانے کے کام تو جوگاڑ سے ہی چل جاتے ہیں۔ جب اس طرح کا طرزِ عمل ہو تو ذہن بھی اسی طرح ٹرین ہوجاتا ہے ساری زندگی بھی اسی ڈگر سے گزرتی ہے سرسری سی، کٹ رہی ہے کاٹ رہے ہیں۔ 

گھر کے کام کرنے کے حوالے سے تو چھوٹے ہو سکتے ہیں مگر اہمیت کے حساب سے چھوٹے، کم تر یا معمولی نہیں ہوتے۔ جب ہم گھر کے چھوٹے چھوٹے کام کو نوبل سمجھتے ہیں تو فوکس رہ کہ دلجمعی سے کرتے ہیں تب سکون میسر آتا ہے دل مطمئن رہتا ہے۔ اس کے برعکس جب گھر کے کام کو معمولی سمجھ کہ کریں تو بوجھ لگتے ہیں، جھٹ پٹ ان کو نمٹانے جلدی ہوتی ہے تب ہماری زندگی بھی افراتفری کا شکار ہو جاتی ہے، بے مزا سی لگتی ہے اور اپنا آپ قیدی محسوس ہوتا ہے۔ یوں لگتا ہے یہ کام ایسا چیک ہے جو کبھی کیش نہیں ہوگا۔

ایک موقعے پہ ہمارے مربی   (سلمان آصف  صدیقی )نے بڑی اچھی بات کی، ''چھوٹے چھوٹے کاموں میں جو بڑا پن ہوتا ہے چھوٹے چھوٹے کاموں میں جو عظمت چھُپی ہوتی ہے۔ اصل میں اللہ ہم سب کو علم عطا کرے کہ بظاہر چھوٹے کاموں کے اندر پوشیدہ عظمت کا جوپہلو ہے اس کو پہچان سکیں اور پھر اس کام کو پوری ذمہ داری کے ساتھ ادا کر سکیں۔ ان چیزوں کو نہ سمجھنے سے بہت چیزیں ٹوٹ پھوٹ گئی ہیں۔''

میرا گناہ، آپ کا گناہ

ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہمیں وہ گناہ، گناہ لگتا ہے  جو ہم نہیں کرتے،  باقی جس گناہ کے ہم مرتکب ہوں اِس کو ہلکا لے رہے ہوتے ہیں اِس سے اُس درجے کی بیزاری اور کراہیت نہیں ہوتی جتنی ہونی چاہیے۔ گویا گناہوں کو بھی ترجیحاتی سطح پہ رکھا ہوا ہے۔ چونکہ اِس والے میں ہم مبتلا ہیں تو اس پہ چپ سادھ لیتے ہیں اس کو نمایاں نہیں کرتے ہاں باقی دوسرے جو ہمارے والے گناہ سے مختلف والے گناہ میں مشغول ہوتے ہیں اُس والے گناہ پہ ہمارا واویلا کمال کا ہوتا ہے۔ گناہ گناہ ہوتا ہے جناب چاہے میرے والا ہو یا آپ کے والا۔

sin, life, judging, bullying, urdu, Pakistan
گناہ   زندگی اسلام    judging sin 


کیا ہم واقعی خوش ہیں؟

کیا آپ واقعی خوش ہیں اور خوش نظر بھی آتے ہیں؟

پہلے ہم یہ جان لیں کہ ہم "کیوں" خوش رہیں؟
اس کی دو بڑی وجوہات ہیں:
۱:اللہ چاہتا ہے ہم خوش رہیں۔
۲:ہولسٹک پرنٹنگ کے لیے اسٹارٹنگ پوائنٹ ہے خوش رہنا۔
اللہ چاہتا ہے ہم خوش رہیں۔
اللہ چاہتا ہے ہم ہر حال میں خوش رہیں، جو ہم سے پیار کرتا ہے وہی تو چاہے گا ہم ہر حال میں خوش رہیں۔ اور شیطان کہتا ہے جس حال میں بھی ہو خوش نہیں رہنا۔ پھر ہم  زندگی کو کوس رہے ہوتے ہیں اس کو نیگٹو لے رہے ہوتے ہیں۔ اللہ کہتا ہے زندگی میں جو بھی امتحان آیا ہے وہ میری طرف سے ہے اور تمہارے لیے بہتر ہے تو خوش رہو۔
تربیہ کے لیے اسٹارٹنگ پوائنٹ ہے خوش رہنا۔
اپنا خوش رہنا مشکل ہے جن کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ان کے ساتھ ریلیشنشپ بھی مشکل ہو جائے گا۔ خوش رہتے ہیں تو ہمارا اپنے بچوں سے تعلق اچھا ہوجاتا ہے، اچھے تعلق سے تربیہ ممکن ہوپاتی ہے، تربیہ کی بنیادی شرط آپ کا خوش نظر آنا ہے، آپ خوش نظر آئیں گے تب ہی بچے پہ مثبت اثر قائم رکھ سکیں گے۔ خوش والدین بچے کی ضرورت ہیں۔ آپ کو اپنے بچے کی بہت فکر ہے آپ نے اپنے بچے کے لیے بہت ساری چیزیں پڑھیں ہیں، سوچی ہیں جانی ہیں، لیکن آپ خوش نہیں نظر آتے، مسکراتے نہیں ہیں، تو تربیہ مشکل ہو جائے گی۔ بچے کی تربیت سمجھانے سے کم مسکرانے سے زیادہ ہوتی ہے۔

اپنی اندرونی حالت کو کیسے بہتر کریں جو خوشی کو حاصل کرسکیں؟
ہم خود پہ "کیا" کام کریں کہ خوش رہیں، خوش نظر آئیں ریلیکس ہوں، اپنا تناؤ ختم کرلیں، مثبت ہو جائیں، اندر سے صحیح ہوجائیں؟
ہم اپنے دل اور ذہن کو اچھی اور کمفرٹایبل فیلنگ "کیسے" دیں؟
اپنےجذبات کا "کیا" کریں، اپنی کیفیات کو کیسے بہتر کرتے ہیں؟
کیسے "بھلانے والی بات" کو بھولیں؟
 اس کے لیے اپنے اوپر کام کرنا پڑتا ہے۔

جنت کا مسافر

آج کے دور میں انفارمیشن کی کمی نہیں، علم بھی ٹکڑوں کی صورت بہت ہے، مگر عمل کا کچاپن بھی اتنا ہی دکھائی دیتا ہے جتنا معلومات کی فراوانی ہے۔ کسی کو اچھی بات بتانا ،بلند خیال شئیر کرنا سورج کو چراغ دکھانے والی بات ہے۔ اگر کبھی شوق میں کسی کے آگے کچھ گوش گزار کیا جائے آگے سے علم کا وہ دریا بھا دیا جاتا ہے کہ آپ اپنا سا منہ لے کے رہ جاتے ہیں۔ اصل تو عمل ہے، اور ہم اپنے علم پہ نازاں عمل کو اتنی اہمیت ہی نہیں دیتے۔ ''علم'' عمل میں کیوں نہیں ڈھلتا، اس کی کئی وجوہات ہوتی ہیں، شیطان بڑا دشمن ہے جو عمل کو کم اہم یا مشکل کر کے دکھاتا ہے اوپر سے اپنا نفس بھی ہمیں سست کر دیتا ہے، 'کر لینا ابھی وقت ہے۔' عمل نا کرسکنا اس کی وجہ علم نافع کا نا ہونا بھی ہے، وہ علم نافع جس کی ہمیں واقعتاً ضرورت ہوتی ہے اس کے حصول کے معاملے میں ہم بڑے قناعت پسند ہوتے ہیں،' بھئی معلوم تو ہے سب کچھ،' لیکن وہ علم تو ہے نہیں جو عمل پہ اکسائے، جو دل میں خشیت الٰہی پیداکرے جو جوابدہی کی فکر میں مبتلا  کرے اور ہم اپنا معاملہ سیدھا کرسکیں۔

پتا نہیں کیوں ویسا دکھائی نہیں دیتا جیسا دکھنا چاہیے، اگر راستہ سجھائی بھی دے تو وہ راستہ نا چننےکے عذر ہزار۔ ہمارا معاملہ یہ ہے اتنے بھاری دل ہیں کہ قربانی دینا مشکل، معاف کرنا اس سے بھی زیادہ مشکل، درگزر کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، صبر اور شکرہے تو برائے نام اور وہ بھی شکایت اور تنقید کے ساتھ، ایسا نہیں تو ویسا کیوں ہے، یہ نہیں ہے وہ نہیں ہے۔