بڑی گیم

 کبھی کبھی لگتا ہے ہم زندگی نہیں گزار رہے زندگی ہمیں گزار رہی ہے نا ہم بڑی گیم کی تیاری کرتے ہیں نا اپنی اولاد کو بڑی گیم کی تیاری کرواتے ہیں، بڑی گیم وہی ہے جو قرآن میں بتائی گئی ہے ہمارا پیدائش کا مقصد "بندگی" مطلب صرف اللہ کی ماننا ہر ہر موقعہ پہ جب کہ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم نے شریعت کو بھی بوفے سمجھا ہوا ہے پک اینڈ چوز کرتے رہتے ہیں، دین کے احکام اپنے کمفرٹ زون کے مطابق بدلنا چاہتے ہیں چھوٹ چاہتے۔ بونوں کی طرح چھوٹی چھوٹی گیم کھیلتے ہیں اپنی اولاد کو بھی وہی سکھاتے ہیں، کمانا، کھانا، گھریلو سیاست، چھوٹی موٹی ہیراپھریاں، جھوٹ، غیبت،  ایک دوسرے کو نیچا دکھانا، سب سے بڑا مسئلہ لڑکیوں کے ساتھ شادی کو ان کی زندگی کا مقصد حیات بنا کے دکھاتے ہیں ناکام ہوگئی تو ختم سب ختم جب کہ دلیری سکھانی تھی، ہر طرح کے حالات کے ساتھ لڑنا سکھانا تھا، گر کہ اٹھ کھڑے ہونا سکھانا تھا، مشکل لوگوں سے پالا پڑجائے تو کیسے اپنی نفسیات کو محفوظ رکھ کے ان کو کیسے ڈیل کیا جائے یہ ہماری ترجیح ہی نہیں، تسلیم و رضا کا کونسیپٹ دینا ہوتا ہے، بس صبر کی تلقین ہاتھ میں پکڑا دیتے ہیں، صبر ہے کیا، صبر کی اصل معنی کیا ہیں ، صبر کی اقسام کیا ہیں یہ سب تو خود تک کو ہی نہیں معلوم اولاد کو کیسے منتقل کریں۔ 

aakhirah, dunya, life hearafter, aim of life

دکھیں ہم غلام ہیں ایک مالک کے، ہم بندے ہیں ایک معبود کے جس نے ہمیں اس دنیا میں کچھ عرصے کے لیے بھیجا ہے کچھ کام سونپ کر کچھ کاموں سے روک کر۔ اس دنیا میں ہمارے آنے کا مقصد کیا ہو ہم زندگی کیسے گزاریں یہ بھی وہی طے کر کے ہمیں یعنی جس کی بنائی ہوئی مشین ہے اس نے سیٹنگ کی ہے ساتھ اضافی ہدایات بھی دی ہیں بتا چکا ہے۔ 

ہماری زندگی کا مین مقصد عبادت ہے۔ اور آج مسلمانوں کا تصور عبادت مصلے کے طول و عرض تک محدود رہ گیا ہے، مسلمانوں کو لگتا ہے جب وہ مصلے پہ کھڑے ہوتے ہیں تو حالت عبادت میں ہیں جب مصلے سے اتر جاتے ہیں تو بس اب عبادت میں نہیں ہیں، اپنی بیوی کو ٹائم دینا عبادت شمار نہیں کرتے، اپنی اولاد کو کہانی سننا عبادت میں شمار نہیں کرتے، اپنے شوہر کا دل جیتنا اس کو نیکی کی فہرست میں ہی نہیں رکھتے۔ اپنے والد کو راضی رکھنا اسکو نیکی بلکہ فرضیت کی سطح پہ کوئج عمل نہیں سمجھتا، یہ ہمارے صورتحال ہے۔ زندگی اس تناظر میں آپریٹ نہیں ہورہی جس میں ہونا چاہیے، اسے لگتا ہے اللہ بس پانچ دفعا بلائے تو مصلے پہ کھڑا ہوجاؤں باقی جو چاہے میں وہ کروں۔ 

ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اس دنیا کو ہی سب کچھ سمجھ لیا ہے اور ہماری ساری کوشش اس دنیا کے حصول کے لیے ہوتی ہے۔ جب کہ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اللہ نے ہمیں اس دنیا میں اس لیے بھیجا ہے کہ ہم اس دنیا میں اس کا کہنا مانتے ہوئے زندگی گزاریں، اس میں عبادات بھی اتی ہیں زندگی کے جملا امور بھی۔

آج کا تعلیمی نظام

مستقبل میں جینے کےلیے جو صلاحیتیں چاہیں یہ آج کی تعلیم پیدا نہیں کر رہی یہ ایک مسئلہ ہے، لیکن ہمیں ہمارے مقصد ِتخلیق سے نہیں جوڑ پارہی یہ اِس کا بڑا مسئلہ ہے۔ موجودہ تعلیمی نظام کا بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ تعلیم لینے کی نتیجے میں ہمیں علم حاصل نہیں ہورہا ہمارے ایمان پر کوئی فرق نہیں پڑ رہا۔ سوشل اسٹڈیز ہمیں سوشل ہونے کی ایکسیلینس نہیں عطا کرتا، اسلامیات کا مضمون فہم ِدین نہیں عطا کرتا، لینگویج کے سبجیکٹ ہمارے لہجے  نرم نہیں بناتے، ریاضی کا مضمون ہمیں عقل کا استعمال نہیں سیکھاتا تجزیے کی قوت کو نہیں بہتر بناتا، سائنس کا مضمون مُشاہدے کے قابل نہیں بنا رہا، تاریخ کا مضمون اپنے ماضی سے سبق لینے والا نہیں بنا رہا، یہ ہمارا بڑا مسئلہ ہے۔ ایجوکیشن ہوتی رہتی ہے علم ایمان اخلاق کی کمی دور نہیں ہوتی، تعلیم میں آگے بڑھا علم میں آگے نہیں  بڑھا۔

ہمارا علم سے لگاؤ

 کیا واقعی ہم اتنے علم دوست ہیں، ہمارے اندر علم سے اتنا لگاؤ ، حصول علم کی اتنی تڑپ ہے کہ اپنے بچوں کو بہلاپھسلا کہ، ڈرا دھمکا کہ، ڈنڈے کے زور پہ غرض ہر طرح کا حیلہ کرکے ان کے اندر وہ علم بھرتے ہیں جو نا ان کی طلب ہے اور نا اس کمسنی میں ان کی ضرورت ہے۔ ہمارا ایجوکیشن سسٹم ریڈنگ رائٹنگ اور اور کچھ سیٹ آف انفارمیشن کو تعلیم کہہ کہ بیچتا ہے۔ ریڈینگ رائٹنگ تو اسکلز ہیں کسی بھی عمر میں سیکھے جا سکتے ہیں اور علمی مواد کی حافظے میں منتقلی اس لیے ہوتی ہے کہ بچے کو امتحان سے گزارا جائے۔ وہ علمی مواد بچے کا حال بنتا ہے یا نہیں یہ اسکول کا درد سر ہی نہیں۔ اس طرح بس رٹو طوطے تیار ہوجاتے ہیں۔

یہاں تھوڑا ٹھر جانے رک جانے کی ضرورت ہے یہ غور کرنے کے لیے کہ

ہم اپنے بچوں کو اسکول کیوں بھیجتے ہیں؟

اس لیے کہ ہم علم دوست ہیں علم حاصل کرنا فرض سمجھتے ہیں؟

اس لیے کہ بچہ پڑھ لکھ کے کمانے کے قابل ہو سکے؟

اپنے عمل کے پیچھے "کیوں" کو واضح رکھنا ضروری ہے تاکہ پتا تو چلے ہم کوئی کام کر کیوں رہے ہیں اور کر رہے ہیں تو پیچھے کوئی بڑی وجہ ہے بھی سہی کہ نہیں۔

ان سوالات کے جوابات سے پہلے کچھ اور چیزیں ہیں جن کا سمجھنا ہم پہ کلئیر ہونا اہم ہے، جیسے علم ہے کیا؟ علم ہمارے وجود کا حصہ کب بنتا ہے؟ علم حاصل کیوں کیا جاتا ہے؟ علم ہمیں کس قابل بناتا ہے؟ کیا اسکول میں علم دیا بھی جاتا ہے، اگر دیا جاتا ہے تو کس قیمت پر؟

میری عزتِ نفس کا تحفظ میری ذمیداری


ہمیں یہ حکم ہے اور یہ ہماری رسپونس ایبلٹی ہے کہ ہمارے ہاتھ سے دوسروں کی جان، مال اور عزت محفوظ رہے۔ اس کو ہمیں شیور بنانا ہے مگر دوسری  طرف اِس بات کی ہمیں گارنٹی نہیں کہ دوسرے بھی ہمارے ساتھ ہمیشہ مثبت برتاؤ کریں گے۔ تو ہماری ایک اور بھی رسپونس ایبلٹی ہے کہ ہم دوسروں کی زیادتیوں کے اثر سے خود کو محفوظ رکھیں، خود کو ہرٹ ہونے سے بچائیں، اپنی سیلف رسپیکٹ کو محفوظ رکھیں۔ دوسرے کی عزت نفس کا خیال رکھنا ہے اپنی عزت نفس مجروح کیے بغیر۔

بندگی، علمِ نافع، جوابدہی، تربیہ، تعلق، اردو، پاکستان,تعلقات، ریلیشنشپ، عزتِ نفس، عقیدہ،
بندگی، علمِ نافع، جوابدہی، تربیہ، تعلق، اردو، پاکستان,تعلقات، ریلیشنشپ، عزتِ نفس، عقیدہ،

یہ کیسے ہوگا؟
1:کسی بھی مسئلے کو "عقیدے کی بنیاد" پہ حل کریں، ہمارا عقیدہ ہمارے مسائل کے تجزیے میں، مسائل کو رسپونڈ کرنے، حل کرنے، اپنے مسائل کو فیس کرنے کے لیے ہمارے عقیدے نے بھی کوئی مدد کی ہے؟ یا ہم ٹولز اور ٹیکنیکس سے مسئلے حل کرتے رہیں گے؟

طعنہ

اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی شان ہے کہ وہ گزری بات کا طعنہ نہیں دیتا روز محشر تک حساب کتاب کو موقف رکھا ہوا ہے اس کے علاوہ توبہ کا دروازہ بھی کھول رکھا ہےتوبہ کے بعد گناہ بھی مٹادیتا ہے۔ یہ انسان ہی ہے جو اِس تاک میں رہتا ہے کہ کب کس کو کس بات کا کہاں طعنہ دینا ہے گویا دوسروں کو طعنہ دینا لوگوں پہ اُن کے قول و فعل کے تضاد کو اور اُن کے علم و عمل کے گیپ کو ان پر جتانا اور اُس کی تشہیر جیسے کارثواب ہو۔نیت ہو، دلوں کا حال ہو یا کسی کے اعمال ہوں وہ بندہ جانتا ہے اور اس کا رب جانتا ہے۔ ہمیں دوسروں کا ظاہر دکھتا ہے اس کا باطن ہم نہیں جان سکتے، کسے خبر کہ وہ شخص کس قدر اپنی اصلاح کی کوشش میں مصروف ہو، اس کے کیا چلینچز ہوں۔ 

اپنی اصلاح، تزکیہِ نفس، طعنہ، اسلام، محاسبہ ، نیکی کی ترغیب
، محاسبہ ،اپنی اصلاح، نیکی کی ترغیب

بڑا کام

عجیب ذہن بنا ہوا ہے ظاہر پرست قسم کا، جو چیز نظر آتی ہے، زیادہ ہے یا بڑی ہے وہی اہم اور قابلِ قدر ہے۔ گھر کے کام کرنے ہیں لپک جھپک کر لو اور باورچی خانے کے کام تو جوگاڑ سے ہی چل جاتے ہیں۔ جب اس طرح کا طرزِ عمل ہو تو ذہن بھی اسی طرح ٹرین ہوجاتا ہے ساری زندگی بھی اسی ڈگر سے گزرتی ہے سرسری سی، کٹ رہی ہے کاٹ رہے ہیں۔ 

گھر کے کام کرنے کے حوالے سے تو چھوٹے ہو سکتے ہیں مگر اہمیت کے حساب سے چھوٹے، کم تر یا معمولی نہیں ہوتے۔ جب ہم گھر کے چھوٹے چھوٹے کام کو نوبل سمجھتے ہیں تو فوکس رہ کہ دلجمعی سے کرتے ہیں تب سکون میسر آتا ہے دل مطمئن رہتا ہے۔ اس کے برعکس جب گھر کے کام کو معمولی سمجھ کہ کریں تو بوجھ لگتے ہیں، جھٹ پٹ ان کو نمٹانے جلدی ہوتی ہے تب ہماری زندگی بھی افراتفری کا شکار ہو جاتی ہے، بے مزا سی لگتی ہے اور اپنا آپ قیدی محسوس ہوتا ہے۔ یوں لگتا ہے یہ کام ایسا چیک ہے جو کبھی کیش نہیں ہوگا۔

ایک موقعے پہ ہمارے مربی   (سلمان آصف  صدیقی )نے بڑی اچھی بات کی، ''چھوٹے چھوٹے کاموں میں جو بڑا پن ہوتا ہے چھوٹے چھوٹے کاموں میں جو عظمت چھُپی ہوتی ہے۔ اصل میں اللہ ہم سب کو علم عطا کرے کہ بظاہر چھوٹے کاموں کے اندر پوشیدہ عظمت کا جوپہلو ہے اس کو پہچان سکیں اور پھر اس کام کو پوری ذمہ داری کے ساتھ ادا کر سکیں۔ ان چیزوں کو نہ سمجھنے سے بہت چیزیں ٹوٹ پھوٹ گئی ہیں۔''

میرا گناہ، آپ کا گناہ

ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہمیں وہ گناہ، گناہ لگتا ہے  جو ہم نہیں کرتے،  باقی جس گناہ کے ہم مرتکب ہوں اِس کو ہلکا لے رہے ہوتے ہیں اِس سے اُس درجے کی بیزاری اور کراہیت نہیں ہوتی جتنی ہونی چاہیے۔ گویا گناہوں کو بھی ترجیحاتی سطح پہ رکھا ہوا ہے۔ چونکہ اِس والے میں ہم مبتلا ہیں تو اس پہ چپ سادھ لیتے ہیں اس کو نمایاں نہیں کرتے ہاں باقی دوسرے جو ہمارے والے گناہ سے مختلف والے گناہ میں مشغول ہوتے ہیں اُس والے گناہ پہ ہمارا واویلا کمال کا ہوتا ہے۔ گناہ گناہ ہوتا ہے جناب چاہے میرے والا ہو یا آپ کے والا۔

sin, life, judging, bullying, urdu, Pakistan
گناہ   زندگی اسلام    judging sin 


کیا ہم واقعی خوش ہیں؟

کیا آپ واقعی خوش ہیں اور خوش نظر بھی آتے ہیں؟

پہلے ہم یہ جان لیں کہ ہم "کیوں" خوش رہیں؟
اس کی دو بڑی وجوہات ہیں:
۱:اللہ چاہتا ہے ہم خوش رہیں۔
۲:ہولسٹک پرنٹنگ کے لیے اسٹارٹنگ پوائنٹ ہے خوش رہنا۔
اللہ چاہتا ہے ہم خوش رہیں۔
اللہ چاہتا ہے ہم ہر حال میں خوش رہیں، جو ہم سے پیار کرتا ہے وہی تو چاہے گا ہم ہر حال میں خوش رہیں۔ اور شیطان کہتا ہے جس حال میں بھی ہو خوش نہیں رہنا۔ پھر ہم  زندگی کو کوس رہے ہوتے ہیں اس کو نیگٹو لے رہے ہوتے ہیں۔ اللہ کہتا ہے زندگی میں جو بھی امتحان آیا ہے وہ میری طرف سے ہے اور تمہارے لیے بہتر ہے تو خوش رہو۔
تربیہ کے لیے اسٹارٹنگ پوائنٹ ہے خوش رہنا۔
اپنا خوش رہنا مشکل ہے جن کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ان کے ساتھ ریلیشنشپ بھی مشکل ہو جائے گا۔ خوش رہتے ہیں تو ہمارا اپنے بچوں سے تعلق اچھا ہوجاتا ہے، اچھے تعلق سے تربیہ ممکن ہوپاتی ہے، تربیہ کی بنیادی شرط آپ کا خوش نظر آنا ہے، آپ خوش نظر آئیں گے تب ہی بچے پہ مثبت اثر قائم رکھ سکیں گے۔ خوش والدین بچے کی ضرورت ہیں۔ آپ کو اپنے بچے کی بہت فکر ہے آپ نے اپنے بچے کے لیے بہت ساری چیزیں پڑھیں ہیں، سوچی ہیں جانی ہیں، لیکن آپ خوش نہیں نظر آتے، مسکراتے نہیں ہیں، تو تربیہ مشکل ہو جائے گی۔ بچے کی تربیت سمجھانے سے کم مسکرانے سے زیادہ ہوتی ہے۔

اپنی اندرونی حالت کو کیسے بہتر کریں جو خوشی کو حاصل کرسکیں؟
ہم خود پہ "کیا" کام کریں کہ خوش رہیں، خوش نظر آئیں ریلیکس ہوں، اپنا تناؤ ختم کرلیں، مثبت ہو جائیں، اندر سے صحیح ہوجائیں؟
ہم اپنے دل اور ذہن کو اچھی اور کمفرٹایبل فیلنگ "کیسے" دیں؟
اپنےجذبات کا "کیا" کریں، اپنی کیفیات کو کیسے بہتر کرتے ہیں؟
کیسے "بھلانے والی بات" کو بھولیں؟
 اس کے لیے اپنے اوپر کام کرنا پڑتا ہے۔

جنت کا مسافر

آج کے دور میں انفارمیشن کی کمی نہیں، علم بھی ٹکڑوں کی صورت بہت ہے، مگر عمل کا کچاپن بھی اتنا ہی دکھائی دیتا ہے جتنا معلومات کی فراوانی ہے۔ کسی کو اچھی بات بتانا ،بلند خیال شئیر کرنا سورج کو چراغ دکھانے والی بات ہے۔ اگر کبھی شوق میں کسی کے آگے کچھ گوش گزار کیا جائے آگے سے علم کا وہ دریا بھا دیا جاتا ہے کہ آپ اپنا سا منہ لے کے رہ جاتے ہیں۔ اصل تو عمل ہے، اور ہم اپنے علم پہ نازاں عمل کو اتنی اہمیت ہی نہیں دیتے۔ ''علم'' عمل میں کیوں نہیں ڈھلتا، اس کی کئی وجوہات ہوتی ہیں، شیطان بڑا دشمن ہے جو عمل کو کم اہم یا مشکل کر کے دکھاتا ہے اوپر سے اپنا نفس بھی ہمیں سست کر دیتا ہے، 'کر لینا ابھی وقت ہے۔' عمل نا کرسکنا اس کی وجہ علم نافع کا نا ہونا بھی ہے، وہ علم نافع جس کی ہمیں واقعتاً ضرورت ہوتی ہے اس کے حصول کے معاملے میں ہم بڑے قناعت پسند ہوتے ہیں،' بھئی معلوم تو ہے سب کچھ،' لیکن وہ علم تو ہے نہیں جو عمل پہ اکسائے، جو دل میں خشیت الٰہی پیداکرے جو جوابدہی کی فکر میں مبتلا  کرے اور ہم اپنا معاملہ سیدھا کرسکیں۔

پتا نہیں کیوں ویسا دکھائی نہیں دیتا جیسا دکھنا چاہیے، اگر راستہ سجھائی بھی دے تو وہ راستہ نا چننےکے عذر ہزار۔ ہمارا معاملہ یہ ہے اتنے بھاری دل ہیں کہ قربانی دینا مشکل، معاف کرنا اس سے بھی زیادہ مشکل، درگزر کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، صبر اور شکرہے تو برائے نام اور وہ بھی شکایت اور تنقید کے ساتھ، ایسا نہیں تو ویسا کیوں ہے، یہ نہیں ہے وہ نہیں ہے۔

Till Death Do Us Part

Marriage is a permanent commitment between a man and a woman; a single piece of marriage paper unite them legally, socially, economically, and emotionally. It is a kind of commitment that tie a couple for the rest of their lives. Otherwise a lack of commitment to the marriage become the reason for separation/divorce. In fact when your futures are tied together, you become more committed to your marriage, give up your choices, and act carefully.

Undeniably, marriage is hard and life after marriage may not prove easygoing as we expect or wish; still you can earn the benefits of it by adjustment, compromise and sacrifice; indeed friendship, respect and understanding are the basics of marriage. For keeping your marriage healthy, happy and strong, you have to work on it everyday.

Forgiveness Kindness Relationship Happy Married Life
Happiness Kindness Love Relationship