آج کے دور میں انفارمیشن کی کمی نہیں، علم بھی ٹکڑوں کی صورت بہت ہے، مگر عمل کا کچاپن بھی اتنا ہی دکھائی دیتا ہے جتنا معلومات کی فراوانی ہے۔ کسی کو اچھی بات بتانا ،بلند خیال شئیر کرنا سورج کو چراغ دکھانے والی بات ہے۔ اگر کبھی شوق میں کسی کے آگے کچھ گوش گزار کیا جائے آگے سے علم کا وہ دریا بھا دیا جاتا ہے کہ آپ اپنا سا منہ لے کے رہ جاتے ہیں۔ اصل تو عمل ہے، اور ہم اپنے علم پہ نازاں عمل کو اتنی اہمیت ہی نہیں دیتے۔ ''علم'' عمل میں کیوں نہیں ڈھلتا، اس کی کئی وجوہات ہوتی ہیں، شیطان بڑا دشمن ہے جو عمل کو کم اہم یا مشکل کر کے دکھاتا ہے اوپر سے اپنا نفس بھی ہمیں سست کر دیتا ہے، 'کر لینا ابھی وقت ہے۔' عمل نا کرسکنا اس کی وجہ علم نافع کا نا ہونا بھی ہے، وہ علم نافع جس کی ہمیں واقعتاً ضرورت ہوتی ہے اس کے حصول کے معاملے میں ہم بڑے قناعت پسند ہوتے ہیں،' بھئی معلوم تو ہے سب کچھ،' لیکن وہ علم تو ہے نہیں جو عمل پہ اکسائے، جو دل میں خشیت الٰہی پیداکرے جو جوابدہی کی فکر میں مبتلا کرے اور ہم اپنا معاملہ سیدھا کرسکیں۔
پتا نہیں کیوں ویسا دکھائی نہیں دیتا جیسا دکھنا چاہیے، اگر راستہ سجھائی بھی دے تو وہ راستہ نا چننےکے عذر ہزار۔ ہمارا معاملہ یہ ہے اتنے بھاری دل ہیں کہ قربانی دینا مشکل، معاف کرنا اس سے بھی زیادہ مشکل، درگزر کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، صبر اور شکرہے تو برائے نام اور وہ بھی شکایت اور تنقید کے ساتھ، ایسا نہیں تو ویسا کیوں ہے، یہ نہیں ہے وہ نہیں ہے۔
شکر کے لیے سب ہو، یہ تو ان لوگوں نے کا خیال تھا جنہوں نے حضرت ایوب علیہ السلام کے لیے کہا چونکہ اِن کے پاس سب کچھ ہے تبھی شکر کرتے ہیں، پھر اللہ نے حضرت ایوب علیہ السلام کو آزمایا تو آپ علیہ السلام نے صبر کا دامن بھی پکڑلیا۔ شاکر تو تھے صابر بھی بن گئے۔ ان کے لیے ایسا صبر ،شکر کرنا،توکل کرنا کیوں آسان تھا کیا ان کو ویسا دردمحسوس نہیں ہوتا تھا جیسا ہمیں ہوتا ہے؟ اُن مقدس ہستیوں کو بھی درد ہوتا تھا، تبھی تو اللہ نے اِہل طائف کے سخت سلوک کرنے پہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دلجوئی کی خاطر پہاڑوں کے فرشتے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا جو حکم کریں تو اہلِ طائف کو پہاڑوں کے بیج کچل دیا جائے، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبر کو ترجیح دی اور اہلِ طائف کے متعلق نیک گمان رکھا۔
سیرتِ طیبہ، قصصُ الانبیاء پڑھ کے ہم کہتے ہیں ہم ویسے نہیں بن سکتے، واقعی ہم ویسے نا ہیں، نا بن سکتے ہیں لیکن انبیاء علیہم السلام اس لیے ہی بھیجے گئے کہ ہمیں ان کی پیروی کرنی ہے، اُن کے راستے پہ چلنا ہے۔ ہم چلنے کی کوشش تو کریں، ہم محنت سے جی چراتے دنیا سے دل لگائے ہوئے ہیں اور دل پھر بھی بے قرار ہیں۔
یہ بڑا ضروری ہے کہ جنت میں داخلہ ہمارےپیشِ نظر رہے، جنت سے نکل کہ جب زمین پہ آئے ہیں اب یہاں سے واپسی جنت میں ہی ہو۔اب اس زمین پہ جو زندگی دی گئی ہے وہ کس طرح گزاریں کہ جنت میں واپسی ممکن ہو؟
ہماری زندگی کا ٹائٹل ہونا چاہیے، "جنت میں واپسی کا سفر"۔ مگر صرف ٹائٹل سے کام نہیں چل گا، اس کے لیے کام بھی کرنا پڑے گا، بہت کام۔ اللہ یہ سفر آسان بنائے۔ یہ دنیا مسافر خانہ ہے اور ہم جنت کے مسافر۔جنت کی طرف جانے والے راستے کا نقشہ قرآن اور سنت میں موجود ہے اور راستے میں کیا کیا زادِراہ راہ ہو، ہمیں اِس راستے پہ کس سامان کی ضرورت ہوگی اِس کی تفصیل بھی قرآن اور سنت سے ملتی ہے۔ قرآن کے مطابق ہمارا پیدائش کا مقصد "بندگی" ہے، جب ہم اپنا زندگی کا مقصد سیٹ کریں تو وہ بندگی کو سپورٹ کرتا ہو۔ پیدائش کے مقصد "بندگی" سے ہٹ گئے تو جنت میں واپسی کا سفر ممکن نا ہوگا۔ اس لیے مقصد ِتخلیق کا علم ہو اُس کو اچھی طرح سمجھ لیں۔
پہلے ہمیں یہ بات سمجھنی اور تسلیم کرنی ہےکہ یہ زندگی ہمیں "بندگی" کے لیے ملی ہے، فرمانبرداری کرنے کے لیے دی گئی ہے، من مانی کرنے کے لیے نہیں، ہم غلام ہیں ہمیں بس وہ کرنا ہے جو آقا کہے۔ بندگی کا مطلب ہے اپنا ہر عمل ہر کام اللہ کی مرضی کے مطابق کرنا۔ یہ دنیا اللہ کی بنائی ہوئی ہے اور اس میں اُسی کا قانون چلتا ہے،اللہ اس کائنات اور ہمارا خالق ہے،نہایت مہربان اور رحم فرمانے والا،علیم وہ خوب جانتاہے ہمیں اور اس کائنات کو کیسے چلاناہے۔
بیشک اللہ کی یاد میں ہی دلوں کا چین ہے۔ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے راستے پہ چلنے پہ ہی کامیابی ہے۔
No comments:
Post a Comment