کیا ہم واقعی خوش ہیں؟

کیا آپ واقعی خوش ہیں اور خوش نظر بھی آتے ہیں؟

پہلے ہم یہ جان لیں کہ ہم "کیوں" خوش رہیں؟
اس کی دو بڑی وجوہات ہیں:
۱:اللہ چاہتا ہے ہم خوش رہیں۔
۲:ہولسٹک پرنٹنگ کے لیے اسٹارٹنگ پوائنٹ ہے خوش رہنا۔
اللہ چاہتا ہے ہم خوش رہیں۔
اللہ چاہتا ہے ہم ہر حال میں خوش رہیں، جو ہم سے پیار کرتا ہے وہی تو چاہے گا ہم ہر حال میں خوش رہیں۔ اور شیطان کہتا ہے جس حال میں بھی ہو خوش نہیں رہنا۔ پھر ہم  زندگی کو کوس رہے ہوتے ہیں اس کو نیگٹو لے رہے ہوتے ہیں۔ اللہ کہتا ہے زندگی میں جو بھی امتحان آیا ہے وہ میری طرف سے ہے اور تمہارے لیے بہتر ہے تو خوش رہو۔
تربیہ کے لیے اسٹارٹنگ پوائنٹ ہے خوش رہنا۔
اپنا خوش رہنا مشکل ہے جن کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ان کے ساتھ ریلیشنشپ بھی مشکل ہو جائے گا۔ خوش رہتے ہیں تو ہمارا اپنے بچوں سے تعلق اچھا ہوجاتا ہے، اچھے تعلق سے تربیہ ممکن ہوپاتی ہے، تربیہ کی بنیادی شرط آپ کا خوش نظر آنا ہے، آپ خوش نظر آئیں گے تب ہی بچے پہ مثبت اثر قائم رکھ سکیں گے۔ خوش والدین بچے کی ضرورت ہیں۔ آپ کو اپنے بچے کی بہت فکر ہے آپ نے اپنے بچے کے لیے بہت ساری چیزیں پڑھیں ہیں، سوچی ہیں جانی ہیں، لیکن آپ خوش نہیں نظر آتے، مسکراتے نہیں ہیں، تو تربیہ مشکل ہو جائے گی۔ بچے کی تربیت سمجھانے سے کم مسکرانے سے زیادہ ہوتی ہے۔

اپنی اندرونی حالت کو کیسے بہتر کریں جو خوشی کو حاصل کرسکیں؟
ہم خود پہ "کیا" کام کریں کہ خوش رہیں، خوش نظر آئیں ریلیکس ہوں، اپنا تناؤ ختم کرلیں، مثبت ہو جائیں، اندر سے صحیح ہوجائیں؟
ہم اپنے دل اور ذہن کو اچھی اور کمفرٹایبل فیلنگ "کیسے" دیں؟
اپنےجذبات کا "کیا" کریں، اپنی کیفیات کو کیسے بہتر کرتے ہیں؟
کیسے "بھلانے والی بات" کو بھولیں؟
 اس کے لیے اپنے اوپر کام کرنا پڑتا ہے۔

تھوڑا سا فری ٹائم اپنے لیے نکالیں، اپنی زندگی کا جائزہ لیں، ہم یہ دیکھیں ہماری صحت کیسی ہے، ہماری سوچ کیسی ہے، ہماری جذباتی صحت کیسی ہے، ہمارا موڈ کیسا ہے، ہمارا مزاج کیسا ہے، اپنی اسٹرینتھز ویکنسز کیا ہیں، اپنی اہم ذمیداریاں کیا ہیں، کونسی ذمیداری کو نباہنا مشکل ہو رہا ہے
اس کے لیے مجھے کیا کرنا ہے؟
اپنے آپ کو بہتر کرنے کے لیے "کرنے کے کام" کی لسٹ آپ کے پاس موجود ہو، مگرچینج آہستہ آہستہ آتا ہے، جلدی دس پندرہ کام کرنے شروع کیے جلدی تھک کہ سب چھوٹ جانے ہیں،مسلسل کوشش کرنی جو نہیں ہو پا رہا اس کی فکر بھی مبارک فکر ہے، یہ نا سوچیں کہ ہو نہیں سکتا۔
کوشش اور بڑھا دیں، اسٹرجٹی چینج کرلیں، خود پہ شک نہیں کرنا کہ میں نہیں کرسکتا، ہمارے اندر سب کرنے کا پوٹینشل ہے۔ مثبت طرز فکر سے مثبت طرز عمل کا آغاز ہوتا ہے، خوش رہنے کے لیے یہ ہے کہ ہم کتنا پوزیٹو ہوتے ہیں، پوزیٹو سوچ سے ہی ہم پوزیٹو ہوتے ہیں۔ ایک بہت ہی اہم بات ہم سمجھ لیں ذہن میں ہائی لائٹ کر لیں کہ کوشش نہیں چھوڑنی، اپنا پورا زور لگانا ہے۔

اگر ہم اپنے کرنے کہ کاموں کو تین حصوں میں تقسیم کریں تو سمجھنے میں اور ریلیٹ کرنے میں آسانی ہوگی۔1: پہلا پارٹ فزیکل نیڈز کےمتعلق ہے،2: دوسرا ایموشنل ہیلنگ اور3: تیسرا دینی اقدارپہ مشتمل ہے۔ یہ تینوں حصے ایک دوسرے سے باہم منسلک بھی ہے۔
اگر ہم واقعی خوشی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو کسی بھی "کرنے کے کام" کو نظر انداز نہیں کرنا اس کو کم اہم نہیں جاننا، یہ سب کام (بلکہ اس کے علاؤہ بھی مزید کام ہو سکتے ہیں) اینٹی بائیوٹک دوائی کی مثال ہیں کچھ گولیاں لیں کچھ چھوڑ دیں پھر افاقہ بھی کچھ کچھ ہی ہوگا۔ دیکھیں یہ یاد رکھیں آپ خوش رہنا کیوں چاہتے ہیں، اس کی دو وجوہات کیا کم ہیں یہ سب کام کروانے کے لیے؟
شروعات  اللہ  کے نام کے ساتھ کرتے ہیں، ہمیں اپنے کرنے کےکچھ  کام سجھائی دیے ہیں اصل شفا تواللہ کے ہاتھ ہے۔
اللہ سے تعلق:
اللہ کی موجودگی کا احساس ہمارے مزاج کو نرم کر دیتا ہے، خشیت الٰہی کے نتیجے میں انسان نرم پڑ جاتا ہے۔ اللہ کو اپنے اعمال کی جوابدہی کا احساس ہماری مزاج پر اثرانداز ہوتا ہے۔ جب ہم اللہ سے اپنا تعلق مضبوط اور گہرا بناتے ہیں، اللہ پہ کامل یقین اور بھروسہ رکھتے ہیں، اللہ کو اپنا سب سے بڑا خیرخواہ مانتے ہیں تو ہماری ہیلنگ آسان ہوجاتی ہے، ہم خود کو بےیارومددگار، تنہا نہیں سمجھتے۔ بصورتِ دیگر ہم خود کو بے بس مظلوم سمجھتے ہیں، حالات کو ذمیدار ٹھہراتے ہیں، لوگوں کو کوستے شکواہ کناں زندگی گزارتے ہیں۔ تو اپنا فوکس اللہ پہ رکھیں، ہمیں یہ سمجھنا چاہیے اللہ ہم سے چاہتا کیا ہے۔ اللہ نا چاہے تو ہم چاہ بھی نا سکیں، ہم اپنی حالت اپنے بل بوتے پہ بہتر نہیں کرسکتے تو اللہ سے مدد کی التجا ہے بیشک اللہ تعالیٰ "دعا" کرنے والے کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی "نیت" کو اللہ کے لیے خالص کر لینے کے بعد، اپنے حصے کے کام کرنے کی شروعات ہوتی ہے۔

۱:فزیکل نیڈز
فزیکل نیڈز کو صرف زندہ رہنے کے لیے ہی پورا نہیں کرنا ہوتا بلکہ اچھی جسمانی اور جذباتی صحت کے لیے، ہماری اندر کی فضا کو سازگار بنانے میں بھی ان کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ ہڈیوں میں کیلشم نہیں تو عمل میں استحکامت دکھانا مشکل ہوجاتا ہے۔ فزیکل نیڈز اس وقت پوری ہوتی ہیں جب ہمارا لائف اسٹائل ٹھیک ہوتا ہے۔ ہمارا لائف اسٹائل پورا کا پورا جیسے ہم ہیں ویسا بنا دیتا ہیں۔ اپنی بیسک فزیکل نیڈز کو نظر انداز نہیں کریں، اپنے سونے کھانے پینے اپنی ڈائٹ، فزیکل ایکٹویٹیز ان کو نظر انداز نا کریں۔ آپ کھاتے کیا ہیں آپ فریش ائیر میں جاتے ہیں نہیں جاتے، کھلی ہوا میں بھاگ دوڑ ایکسرسائز کرتے ہیں یا نہیں۔
اگر ڈائٹ میں گڑبڑ کر دیں گے تو برین ڈولپمنٹ متاثر ہوگی،مزاج متاثر ہوگا، انسان جو کھاتا ہے جو پیتا ہے اس کی بنیاد پہ اس کی طبیعت کے رجحانات بنتے ہیں۔ آپ کی جو فوڈ چوائسز ہیں وہ آپ کے رویوں پر آپ کی نفس کی حالت پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ نیچر کے ساتھ کنیکٹ کریں، انسان جتنا فطرت کے قریب رہتا ہے اس کی داخلی فطرت بھی ٹھیک رہتی ہے۔ خارجی فطرت کسی حد تک ہماری اندر کی ٹوٹ پھوٹ کے لیے شفا رکھتی ہے، ہماری داخلی فطرت کی نرچرنگ کا، اطمینان کا سامان کرتی ہے۔ سلیپ کے پرابلم ٹیمپرامینٹ کے پروبلم سے کنیکٹ کرتے ہیں، نیند کی کوالٹی کو اچھا رکھیں۔ فزیکل نیڈز کا خیال کیے بغیر آپ کا مثبت طور پہ پرفارم کرنا دشوار ہوجائے گا، آپ کی کام کی افیکٹونیس متاثر ہوگی۔

Happy Life
Life, Urdu Post Happiness

۲:ایموشنل نیڈز
اپنی ایموشنل نیڈز کے لیے کسی پہ انحصار نا کریں۔فزیکل نیڈز کے بعد اپنی ایموشنل نیڈز کا پورا کرنا آپ کی اپنی اہم زمیداری ہے۔ جب ایموشنل نیڈز پوری ہوتی ہیں تو آپ خوش رہتے ہیں اور خوش نظر بھی آتے ہیں۔
ہمارے تعلقات خوبصورت ہوجاتے ہیں، ہم امپلسو موڈ سے ریفلیکٹو موڈ میں آجاتے ہیں۔
1:اپنے ساتھ تعلق،2: خود کواہم سمجھنا دوسروں کو غیر اہم سمجھے بغیر،3: اپنے جذبات کو سمجھنا اور  4:اپنےاوپر یقین کرنا آپ کی ایموشنل نیڈز ہیں۔
  • اپنے ساتھ تعلق:
اگر آپ کا اپنے ساتھ تعلق نہیں ہے تو آپ کا ایموشنلی میچور ہونا مشکل ہو جائے گا، ایموشنلی
میچور ہونے کا مطلب آپ کا خود پہ قابو ہو، آپ کے ایموشنز مناسب ہوں، بات بات پہ جذباتی نا ہوجائیں، آسانی سے ڈپریس نا ہوں، خوشی میں دیوانے نا ہوجائیں، غم میں بلکل ڈھے نا جائیں، یہ ہے ایموشنل میچورٹی۔ ایموشنل نیڈز ایک دفعا پوری کرنے سے پوری ہوجائیں ایسا نہیں ہے، روزانہ کی بنیاد پہ پوری کرنی ہوتی ہیں، کھانے کی طرح۔
اپنے ساتھ تعلق بنائیں، اپنے ساتھ تعلق کا مطلب ہے انسان اپنی پوری ذمیداری لے، اپنے نفس، نیتوں، اپنے عزائم کا تزکیہ کرے۔ خود کو سمجھیں اپنے جذبات کو سمجھیں، اپنے جذبات کی نگرانی کریں، جب ہم غافل ہوتے ہیں تب اپنے نفس کے قابو میں چلے جاتے ہیں۔
خود کو بے بس نا سمجھیں اپنے اختیار کو محسوس کریں، اللہ نے آپ کو اختیار کا ایک دائرہ عطا کیا ہے، آپ کے ہاتھ پاؤں باندھ بھی دیے جائیں تب بھی کوئی آپ کی سوچ کی پرواز کو قابو نہیں
کرسکتا۔ اپنے اختیار کا درست استعمال کریں، اپنی چوائسز میں نفیس ہوجائیں۔
  • خود کو اہم سمجھیں:
خود کو اہم سمجھیں چھوٹائی کے احساس کے ساتھ، درست وجہ درست بنیاد پہ، ہر پل اللہ تعالیٰ
کی نگاہ میں ہیں تو اہم ہونگے نا، میں ذرا ہوں چونکہ اللہ کی نگاہ میں ہوں اہم ہوں۔
  • اپنے اوپر اعتماد کریں:
اللہ نے آپ کے اندر بےپناہ پوٹینشلز رکھیں ہیں ہم ان کو ڈولپ کرسکتے ہیں ان کو یوٹلائز کر سکتے ہیں۔اپنی اسٹرینتھز اور ویکنسز کو نوٹ کریں۔ یہ دیکھیں کہاں کیا کام کرنا، کس ایریا پہ ہم کمزور ہیں اور کہاں ہم اللہ کی مدد سے اچھے جارہے ہیں۔ آپ کی نظر میں آپ کی اسٹرینتھز بھی ہونی چاہیں ویکنسز بھی ہونی چاہیں، اسٹرینتھز نعمتیں ہوتی ہیں تو ان کا شکر واجب ہے، ویکنسز ایریاز آف امپرومنٹ ہیں ان کا بھی شکر ادا کریں کہ اللہ نے دکھا دیں تاکہ ان پہ کام ہو سکے ہم مزید نکھر سکیں۔ آج کی تاریخ میں جو ویکنسز لکھی ہیں ان کا ٹارگٹ ہم خود بنائیں گے اب چند مہینے کے بعد میں اپنی ویکنسز دیکھوں کہ کمی آگئی ہے، بہتری آئی ہے۔
  • ریفلیکشن:
اپنے ساتھ تعلق کے لیے اپنے ساتھ تخلیے میں وقت گزارنا بےحد ضروری ہے۔ فری ٹائم نکالیں تاکہ اپنے اوپر غور کر سکیں، جو چیز ہماری پرسنل افیکٹونیس کو متاثر کر رہی ہو ہماری زندگی میں زہر گھول رہی ہو اس کو پہچاننا اہم ہےجیسے غصہ،منفی سوچ وغیرہ، یہ خود آگاہی ضروری ہے تاکہ اس فیز سے نکل سکیں۔ پیش آنے والے حالات خواہ اچھے ہوں یا بُرے اُس کے متعلق مثبت پہلو نکال کر اُن کو نئے زاویے کے ساتھ سوچنا بھی دلی مسرت کا باعث ہو سکتا ہے۔ خود سے سوال کریں ریفلیکٹ کریں جو میں سوچ رہا ہوں ٹھیک سوچ رہا ہوں، یہ سوچنا چاہیے، جو میں نے کیا ہے ٹھیک کیا ہے، جو محسوس کر رہا ہوں ٹھیک محسوس کررہا ہوں کیسا محسوس کرنا چاہیے، کسی معاملے کو میں نے جیسا دیکھا ہے صحیح دیکھا ہے، لوگ کیسے دیکھ رہے ہیں، اللہ کیسے دیکھے گا اس بات کو، تو ریفلیکشن سپورٹ دیتا ہے۔
جب تک اس ریفلیکشن کو نہیں اپنائیں گے آگے نہیں بڑھ پائیں گے، اپنی زندگی میں موجود مسائل کے ساتھ ویسے ہی زندہ رہیں گے، اگر کوئی مسئلہ نہیں بھی ہے مزید بہتر کرنے کے لیے مزید آسان بنانے کے لیے یہ ضروری ہے۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے قلم کی قسم کھا کر قلم کی اہمیت اور طاقت بیان فرما دی۔ریفلیکشن کرنا ہے اور لکھنا بھی ہے، جب ہم لکھتے ہیں تو اپنے  نفس سے زیادہ قریب ہوتے ہیں، لکھنے کا اور ہی اثر ہوتا ہے، قلم ہتھیار ہے نا تو یہ ہتھیار اپنے لیے چلائیں، روزانہ کی بنیاد پہ غور و تدبر کی نیکی کرنی ہے۔
۳:دینی اقدار
آپ کی ایموشنل نیڈز پوری ہونگی اللہ کے بتائے گے اعمال اپنا کر، توکل، صبر، شکر، درگزر، معاف کر کے، ایثار کرکے، یہ کام کر کے نا صرف آپ جذباتی طور پہ صحتمند بنتے ہیں، بلند انسان بھی بنتے ہیں۔ ہماری ایموشنل ہیلنگ شریعت کی اتباع میں رکھی ہے، جب ہم صبر کرتے ہیں، معاف کرتے ہیں تو یہ ہم اپنے لیے پہلے کرتے ہیں کیونکہ ان کا فائدہ ہمیں پہلے ہوتا ہے۔
  • تشکر:
مسکراہٹ تو خوشی اور شکر کا نتیجہ ہوتی ہے۔اللہ کی رضا میں راضی رہنے سے خوشی ملتی ہے۔ تشکر کا جذبہ سچا نہ ہو یا ادھورا ہو تو خوشی نہیں ملتی، اپنے ہرحال پہ راضی رہنا، مطمئن رہنا بنا شکایت کے شکر ہے۔شکایت پیدا ہو بھی تو زبان پہ نا آنے دینا پورے وجود میں سرشاری کی کیفیت ہو۔ جس کے لیے یہ کام مشکل ہے وہ خوش نہیں رہ سکے گا۔ جو انسان دیکھنے میں خوش و مطمئن نظر آئے اصل میں وہ شکر گزار ہے۔ اپنے پاس موجود نعمتوں کا احساس کیجئے آپ اپنے ربِ کریم کے شکر گزار بندے بن جائیں گے۔ تشکر پیدا کرنے کے لیے اپنی نعمتوں کو نوٹ کریں جن نعمتوں کا شکر ادا کرنے کا خیال کبھی نہیں آیا یا کم آیا ہے تو ان کی لسٹ بنائیں تین دن میں یہ لسٹ مکمل کریں۔ شکر نعمتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ انسان کو خوشیوں سے بھی نوازتا ہے۔
  • صبر و توکل:
صبر ہمیں ایموشنلی اسٹرونگ کرتا ہے، ہم ریلکس رہتے ہیں۔ انسان خدا پر توکل کرتا ہے اور صدق دل سے اپنے تمام معاملات کو خدا کے حوالے کرتا ہے تو ہمیشہ خوش و خرم رہتا ہے۔
کسی بھی حال میں صبر کرنا، ہرحال میں شکر کرنا راضی برضا رہنا، معاف کرنا، قربانی دینا بڑے کام ہیں اور مشکل بھی مگر ناممکن نہیں، ان کاموں کو خوشی کی طرف جانے والی  سیڑھی سمجھیں۔ اگر ہم خود کو حشر کے میدان میں کھڑا تصور کریں پھر دیکھیں کہ ہمیں کن اعمال کی ضرورت ہوگی، تب ان چیزوں کو کرنا آسان ہو جائے گا، انشاء اللہ۔
  • دل کو ہلکا کرنا:
دل ہلکا اس وقت ہوتا ہے جب بھلانے والی بات کو انسان بھلا دے، بھلانے والی بات کو یاد رکھیں گے دل بھاری ہو جائے گا، خوشی کو حاصل نہیں کرسکتے۔ بھاری دل کے ساتھ قربانی دینا، معاف کرنا مشکل ہوتا ہے۔لوگوں کو اللہ کے لیے معاف کریں اس لیے معاف کریں کہ اللہ ہمیں معاف کرے اس بڑے دن۔
معاف کرنا اگرآپ کی نفسیاتی صحت کو بہتر نہیں کر رہا تو اس کا مطلب معاف کیا ہی نہیں۔
اپنی زندگی میں جو ہوا اس پہ ریفلیکٹو کریں، اس سے لرننگ لیں، تلخ یادوں کو ریوزٹ نا کریں، اپنے ساتھ ہوئی زیادتیوں کو بھول جائیں۔ جب ہم ناگوار باتوں پہ ریفلیکٹ کرتے ہیں یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں یہ کیوں ہمارے ساتھ ہوا اور اپنے لیے سبق تلاش کرتے ہیں پھر ہم مطمئن ہوجاتے ہیں اور ان کو بھول پاتے ہیں۔
  • ایثار:
خوشی اور دل کا سکون 'دینے' سے آتا ہے، خوشی کھانے میں کم کھلانے میں زیادہ ہوتی ہے، دوسروں کے کام آنے سے خوشی ملتی ہے۔ اللہ کی رضا کے لئے دوسروں کو فائدہ پہنچا کر ایثار کا ثواب اور دل کی خوشی دونوں حاصل ہوتی ہیں۔ دوسروں کے لیے زندگی گزارنا حقیقتاً دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا بڑی نیکی ہے۔ اس کا تعین آپ نے خود کرنا ہے کہ کس کس انداز میں آپ دوسروں کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ کسی بھی کاز کے لیے ہم خرچ ہوتے ہیں تو خوشی کا باعث ہوتا ہے۔ دینے والے بنیں، دینا صرف مال کا ہی نہیں ہوتا بہت کچھ ہم دے سکتے ہیں، مسکراہٹ سے لے کر، مدد، نیکی کی دعوت، دعا۔
  • خود کو ڈی اسٹریس کریں:
ہمارے اندر تناؤ پیدا کرنے میں جلدی اور ملٹی ٹاسکنگ کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے ملٹی ٹاسکنگ سے ہمارا ذہن اسٹریس میں، پھر چہرہ پھر موڈ ماحول سب اسٹریس کا شکار ہوتا ہے، ملٹی ٹاسکنگ کا بیج جلدی سے آتا ہے تو جو جڑ ہے "جلدی" اس کو کاٹ ڈالیں۔ سکون کو اپنی زندگی کی قدر بنائیں، مائنڈ فل رہیں۔ مائنڈفلنیس میں سکون ہے، چہرے کے تاثرات، دل، مزاج سب میں سکوں ہوگا۔ ہمارے اندر چڑچڑاہٹ بھی نہیں ہوگی، ذہن میں خیالات بھی بہتر ہونگے۔ سادگی اپنائیں، انوکھےپن اور جدید سے جدیدتر کی تلاش ہمارے وقت اور انرجی کو ضائع ہی کرتی ہے لحاظہ اپنے اوپر بے جا کام کا لوڈ نا ڈالیں کہ خوشگوار وقت گزارنے کے بجائے آپ غیرضروری بکھیڑوں میں الجھے رہتے ہوں تو اس پر نظر ثانی کیجئے۔
اپنی روٹین آف لائف کا جائزہ لیجئے کہ کہیں آپ خوش رہنے کا وقت کسی اور کام میں تو نہیں گزار رہے،اپنے ٹائم تھیف تلاش کریں، ڈسٹریکشن جیسے سوشل میڈیا، ایڈشنل انفارمیشن، موبائل خاص کر کے صبح آنکھ کھلتے ہی موبائل چیک کرنا، نوٹیفیکیشن آن رکھنا، سیاسی معاملات میں دلچسپی اسٹریس فل ایکٹویٹیز ہیں، آپ کے اطمینان کو نقصان پہچانتی ہیں۔ بے جا تفکرات سے جان چھڑایں۔ اپنی خواہشات کو کم رکھیں۔ توقعات صرف اللہ سے اور اپنے آپ سے لگائیں۔ دوسروں سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کرلیتے ہیں اور جب وہ پوری نہیں ہوتیں توہمیں دکھ ہوتا ہے۔ توقعات جتنی کم ہوں گے، خوش رہنے کا امکان اتنا ہی زیادہ ہوگا۔ جو چیزیں یا کام اسڑیس کا باعث بنتے ہیں ان کو پہچانیں اور ان کو ترک کریں تاکہ اپنی لائف کو اسٹریس فری بنا سکیں۔

             اگر کوئی سمجھتا ہے میں نے اوپر کام کرلیا ہے اور وہ خوش نہیں ہے تو اس کا مطلب ہے اس نے جتنا بھی کام کیا ہے وہ کم ہے، یا اس نے جو کام کیا ہے وہ غلط ڈائریکشن میں کیا ہے۔ اپنے اوپر کام کرنے کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے آپ خوشی کے لیول کو حاصل کر لیں، بچوں کے آگے خوش دکھنا، اپنی پرائیوٹ لائف میں اپنے گھر والوں کے سامنے، اپنی ساس کے سامنے، اپنے ڈومیسٹک اسٹاف کے ساتھ سب سے بڑھ کے آئینے میں اپنے سامنے یہ چیلنج ہے۔ وہ انسان جس کی فیملی کہے یہ بہت خوش ہے تو واقعی اس نے اپنے اوپر کام کیا ہے۔

آرٹیکل کی ترتیب میں  جناب طلحہ       صدیقی    ،  جناب سلمان آصف صدیقی    کے لیکچرز اور گفتگو سے مدد لی گئی ہے۔

No comments:

Post a Comment