ہمیں یہ حکم ہے اور یہ ہماری رسپونس ایبلٹی ہے کہ ہمارے ہاتھ سے دوسروں کی جان، مال اور عزت محفوظ رہے۔ اس کو ہمیں شیور بنانا ہے مگر دوسری طرف اِس بات کی ہمیں گارنٹی نہیں کہ دوسرے بھی ہمارے ساتھ ہمیشہ مثبت برتاؤ کریں گے۔ تو ہماری ایک اور بھی رسپونس ایبلٹی ہے کہ ہم دوسروں کی زیادتیوں کے اثر سے خود کو محفوظ رکھیں، خود کو ہرٹ ہونے سے بچائیں، اپنی سیلف رسپیکٹ کو محفوظ رکھیں۔ دوسرے کی عزت نفس کا خیال رکھنا ہے اپنی عزت نفس مجروح کیے بغیر۔
بندگی، علمِ نافع، جوابدہی، تربیہ، تعلق، اردو، پاکستان,تعلقات، ریلیشنشپ، عزتِ نفس، عقیدہ، |
یہ کیسے ہوگا؟
1:کسی بھی مسئلے کو "عقیدے کی بنیاد" پہ حل کریں، ہمارا عقیدہ ہمارے مسائل کے تجزیے میں، مسائل کو رسپونڈ کرنے، حل کرنے، اپنے مسائل کو فیس کرنے کے لیے ہمارے عقیدے نے بھی کوئی مدد کی ہے؟ یا ہم ٹولز اور ٹیکنیکس سے مسئلے حل کرتے رہیں گے؟
یہاں ہمیں عقیدے سے مدد حاصل ہےمگر ہمارا مسئلہ یہ ہے ہم اس دنیا کو اسٹاپ آور نہیں سمجھتے، ٹرانزیشن فیز نہیں سمجھ رہے۔ ہمیں لگ رہا ہے یہ لمبی نا ختم ہونے والی ہے۔
2:دوسرا پرابلم یہ ہورہا ہے اس عارضی پڑاؤ کی جو مشکلات ہیں ان کا جو اجرہے وہ فائنل منزل پہ ملے گا اس کے اوپر یقین نہیں آرہا شاید۔ اس احساس سے بہت حد تک پرابلم حل ہوگا، اس بات کو اپنے تھاٹ پراسس میں رکھنا ہوگا کہ اجر آخرت میں ملے گا۔ صبر اور برداشت، قربانی اور سمجھوتے کے فرق کو سمجھیں۔
3:اگر کسی انسان کا طریقہ یا رویہ منفی ہی ہے، تو ہم یہ دیکھیں کہ وہ انسان کون ہے، اُس کی ہماری زندگی میں کیا اہمیت ہے۔ ایسے رشتے جو قریبی اور ترجیحاتی بنیاد پہ اہم نہیں تو اُن سے فاصلا کیا جا سکتا ہے، تعلق ختم کرنا مناسب نہیں،فرار مسئلے کا حل نہیں۔ پہلے جتنا ملنا تھا اس سے کم کیا جاسکتا ہےکوئی شخص جس کے ساتھ تعلقات میں مشکل پیش آرہی ہو تو دعا کر سکتے ہیں، اِس یقین کے ساتھ ہم اللہ کی عدالت میں رکھ رہے ہیں جس کے پاس حل ہے، جب یہ اعتماد اور اطمینان ہوتا ہے پھر چیزیں نفیس ہوجاتی ہیں۔
4:یہ آپ کا ٹیسٹ ہوتا ہے آپ نے دعا کی اس کے باوجود کوئی بری صورتحال پیش آتی ہے، کوئی ظلم کرتا ہے، کوئی زیادتی کرتا ہے، کوئی آپ کو تکلیف پہنچاتا ہے، تو یہ آپ کا ٹیسٹ ہوتا ہے کہ آپ اس میں راضی رہتے یا نہیں رہتے۔بڑا انسان وہی ہوتا ہے جو خود کو درپیش مسائل اور چلینجز کو آگے لے کر چلتا رہے۔ہم یہ سمجھتےہیں کہ ہماری زندگی کے مسائل اور چلینجز لوگوں کی وجہ سے ہیں، لوگوں کی وجہ سے مجھے مل رہے ہیں، جب کہ ہماری زندگی میں اللہ نے مجھے سیکھانے کے لیے بھیجے ہیں۔ آپ اس صورتحال کو ایسے دیکھیں ہیں اسی میں کوئی بہتری ہوگی مجھے سمجھ میں نہیں آرہی بظاہر مجھے تکلیف مل رہی ہے ہوسکتا ہے اس کے نتیجے میں ہیومن سائیکالوجی پہ میری گرفت اچھی ہوجائے، زندگی کے تلخ حقائق سمجھ آجائیں۔ جب ہم یہ سمجھ لیتے ہیں تو ان کو دیکھنے کا، ان سے نمٹنے کا زاویہ بدل جاتا ہے۔
5:اِس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اگلے کو کرنے دیں۔ یہ بلکل بھی ٹھیک بات نہیں ہم اپنی عزتِ نفس مجروح ہونے دیں، ہم انہیں موقع دیں اور صرف اگنور کریں ۔ دوسروں کے لیے ایزی ٹارگٹ نہیں بننا، جہاں بات ہو سکتی ہو، وہاں تحمل سے اپنی فیلنگز بتا کر معاملا سلجھانے کی کوشش کی جائے،اس کے لیے بڑی حکمت چاہیے کیونکہ کہ اکثر بات کرنے سے ضد اور مقابلے کی فضا پیدا ہو جاتی ہے مزید حالات خراب ہوجاتے ہے۔ اللہ سے دعا کریں۔اُسی وقت بات کرنا حکمت نہیں اورصرف کہہ دینا بھی مقصد نہیں ہوتا، بات یہ ہے کہ انہوں نے اچھے سےسن بھی لیا، کوئی رکاوٹ تو نہیں بات سننے اور سمجھنے میں۔ کسی ایسے وقت جب وہ شخص سن سکتا ہو تب ہم اپنی حد میں رہتے ہوئے درست موقعے اوردرست جگہ پہ مناسب الفاظ کے ساتھ دوسروں کو اپنی حدود، توقعات اور عزتِ نفس کا لحاظ کرنے کا کہہ سکتے ہیں۔
6:کچھ لوگ اپنی روِش نہیں چھوڑتےاور بات بھی وہاں کی نہیں جا سکتی تو ہم یہ سمجھیں، مجھے پتہ لگ گیا کہ کیلے کا چھلکا ہے کل بھی گرا، آج پھر پِھسلنا پڑے گا۔ بہتر ہے کہ میں احتیاط کروں، مجھے جب تک تجربہ نا تھا تو دھوکا کھا لیا خود کو ہرٹ کر لیا۔ اب تجربہ ہوچکا تو سنبھل جاؤں ۔کبھی کبھی ہم ایک ہی انسان سے بار بار ہرٹ ہوتے ہیں، دھوکہ کھاتے ہیں، جب ہمارے تجربے میں ایک چیز آگئی کہ یہ شخص ایسا کر سکتا ہے تو اب وہ ہمارے ساتھ پہلی بار کے بعد دوسری بار بھی ایسا کرتا ہے تو مجھے اتنا درد نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ پہلی بار سرپرائز تھا، دوسری بار درد نہیں ہونا چاہیے یا کم ہونا چاہیے، خود کو اتنا تو ایموشنلی اسٹرونگ کروں جو پہلی بار ریکشن دیا ویسا نہ محسوس کروں، اپنے آپ کو اتنی تکلیف میں نہ جانے دوں۔
7:اللہ پہ یقین اور علم نافع حاصل ہوتے ہیں انسان کا گھبرانا کم ہوتا ہے۔کون سی چیز کو فیل نہیں کرنا کون سی چیز کو کتنا فیل کرنا ہے یہ کام علم نافع کرتا ہے۔ علم کم تھا 50 باتوں پہ برا مانتا تھا، علم بڑھا 6 باتوں کو برا مانتا ہوں، علم اور بڑھا اس بندے کی دو باتوں پہ ڈسٹرب ہوتے ہیں۔ علم اور ایمان اور بڑھا، جس کی باتوں پہ ڈسٹرب ہوتے تھے اب ایک امید ہے شاید یہ آدمی ہماری خامیوں گناہوں کے باوجود ہمارا جنت میں جانے کا باعث ہے۔ آپ کے اندر مضبوطی پیدا ہوتی ہے، ان کا وار آپ کو زخمی نہیں کرتا۔
ایک چیز ہوتی ہے محسوس کرنا، ایک ہے دیکھنا اور ایک سوچنا، یہ تینوں فنکشنز پہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ میں کیا دیکھوں اور کیسے دیکھوں، مجھے کس طرح دیکھنا چاہیے، مجھے کسی معاملے کو کس طرح نہیں دیکھنا چاہیے، مجھے کس طرح سوچنا چاہیے کس طرح نہیں، کس بات کو محسوس کرنا چاہیے، کس بات کو کتنا محسوس کرنا چاہیے، کس بات کو نہیں محسوس کرنا چاہیے۔ کون سی بات کو میں نے اگنور کرنا ہے، کون سی بات کو میں نے رجسٹر کرنا ہے، کون سی بات کو دل میں رکھنا ہے اور کتنی جگہ دینی ہے، یہ سب چیزیں علم سے حاصل ہوتی ہیں، اِسی کو حکمت کہتے ہیں، اس کی دعا کرنی چاہیے۔
8:کسی کی زندگی سے نکل جانا، کسی کو اپنی زندگی سے نکال دینا یہ مسئلے کا حل نہیں اور نا ہی قطع تعلقی کی ہمیں اجازت ہےبلکہ ٹارگٹ یہ ہو کہ ہم جذباتی طور مضبوط ہوجائیں۔ویدر وین نہیں بننا کہ جب جب گرم ہوا آئے اُس کے رُخ پہ اپنےسکون و چین کو برباد کرلیں۔تنقید آئی، ناپسندیدگی ملی تو بُجھ گئے۔ہمارے اپنے الفاظ، جذبات اور معاملات ہمارے کنٹرول میں ہوں۔ ہم امپلسو نہ ہو، ہمارا کنٹرول ہمارے ہاتھ ہو اگر کوئی ہمارے ساتھ برا کرتا ہے تو اس کا اپنا نقصان ہوتا ہے ہم اس پہ ڈسٹرب ہوکے اس کا اثر لے کہ اپنا نقصان نا کریں۔ میری ذہنی اور نفسیاتی صحت کی شرط یہ ہے میں مطمئن رہوں۔
آرٹیکل کی ترتیب میں جناب طلحہ صدیقی ، جناب سلمان آصف صدیقی کے لیکچرز اور گفتگو سے مدد لی گئی ہے۔
No comments:
Post a Comment