طعنہ

اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی شان ہے کہ وہ گزری بات کا طعنہ نہیں دیتا روز محشر تک حساب کتاب کو موقف رکھا ہوا ہے اس کے علاوہ توبہ کا دروازہ بھی کھول رکھا ہےتوبہ کے بعد گناہ بھی مٹادیتا ہے۔ یہ انسان ہی ہے جو اِس تاک میں رہتا ہے کہ کب کس کو کس بات کا کہاں طعنہ دینا ہے گویا دوسروں کو طعنہ دینا لوگوں پہ اُن کے قول و فعل کے تضاد کو اور اُن کے علم و عمل کے گیپ کو ان پر جتانا اور اُس کی تشہیر جیسے کارثواب ہو۔نیت ہو، دلوں کا حال ہو یا کسی کے اعمال ہوں وہ بندہ جانتا ہے اور اس کا رب جانتا ہے۔ ہمیں دوسروں کا ظاہر دکھتا ہے اس کا باطن ہم نہیں جان سکتے، کسے خبر کہ وہ شخص کس قدر اپنی اصلاح کی کوشش میں مصروف ہو، اس کے کیا چلینچز ہوں۔ 

اپنی اصلاح، تزکیہِ نفس، طعنہ، اسلام، محاسبہ ، نیکی کی ترغیب
، محاسبہ ،اپنی اصلاح، نیکی کی ترغیب

بحیثیت مسلمان ہمیں ایک دوسرے کو نیکی کی ترغیب دینے کا حکم ہے، اگر کوئی نیکی کی یا دین کی بات کر رہا ہے تو وہ اس حکم کی تعمیل کرہا ہے کہ "ہر مسلمان کو مُبَلِّغ ہونا چاہیے"، جسے جو مسئلہ صحیح طور پر معلوم ہو، وہ لوگوں کو بتا دے، صرف علما پر تبلیغ نہیں، آپ یہ دیکھیں، نہ کی الٹا طعنہ زنی شروع کر دیں کہ تم کہاں کے اچھے ہو۔ ہمیں کیا خبر وہ شخص بھی اپنی اصلاح کی کوشش میں لگا ہو اور دینی احکامات پہ چلنے کی کوشش میں آپ کو بھی حق کی بات کردی اور کیا معلوم اِسی نیکی کی تلقین کے نتیجے میں اس کی اپنے لیے کی گئی کوششیں بھی کامیاب ہو جائیں، شئیرنگ کے نتیجے میں اُسے مزید کلئیرٹی ملے۔


حق سچ جہاں سے ملے کُھلے دل سے قبول کرنا چاہیے، طعنہ زنی نہیں کرنی ہوتی کہ بڑا اللہ رسول کرتا ہے اور اعمال دیکھو۔ اگر کسی کہ کچھ اعمال درست نہیں بھی ہیں تو کیا اللہ رسول کا نام بھی نہ لے، کلمہ پڑھنا بھی چھوڑ دے۔ ہم سے کوشش مطلوب ہے، ہم نے اپنے نفس سے، شیطان سے مسلسل جنگ کرنی ہے، اس جدوجہد میں اگر گِر بھی گئے تو پھر اٹھ کھڑا ہونا ہے، اللہ کو راضی کرنے اور اس سے راضی رہنے کے جتن کرنے ہیں۔ قبولیت تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ہاتھ ہے، چاہے تو پاؤ بھر کوشش قبول کرے چاہے تو کڑا احتساب کرے اور ہمارے مَن و ٹَن نیک اعمال نہ قبول کرے۔


No comments:

Post a Comment